Wednesday, December 28, 2016

قدرت کے قریب رہنے والا کیلاش دیسی قبیلہ زمانے کے رحم و کرم پر

قدرت کے قریب رہنے والا کیلاش دیسی قبیلہ زمانے کے رحم و کرم پر

تحریر: ابراش پاشا


صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادی کیلاش، جس میں کیلاش  قبیلہ کےلوگ رہتے ہیں ۔ یہ ضلع چترال کے  مغرب  میں پاک افغان سرحد [ڈیورنڈلایئن]  پر واقع ہیں۔ کیلاش تین مزید چھوٹے چھوٹے علاقوں میں  تقسیم ہیں جس کو بیریر، رمبور اور بمبوریت کہا جاتا ہے۔ ان کے شناخت کے حوالے سے متضاد دعوے موجود ہیں کہ یہ سکندر اعظم سے رہ گئے تھے، کوئی کہتے ہیں ان کا یونان کے میسیڈونیا سے تعلق تو کوئی ایرانی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کیلاش قوم کے لوگوں نے چترال پر  بھی حکومت  کی ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا  کہ انکا اصل تعلق کہاں سے ہے بلکہ یہ ڈھونڈنا  ماہرین کا کام ہے۔ یہاں پر میں اپنے خیالات و مشاہدات کا اظہار کرنا چاہوں گا جو میرے اس  وادی کے لوگوں کے ساتھ پچھلے پندرہ سالوں کے چار/پانچ  دوروں  کے دوران میں نے محسوس  کئے ۔  میرے اس  علاقے میں جانا تحقیقی اور معلوماتی مقاصد کے لئے تھا۔ اور لوگوں سے معلومات لینے کے علاوہ میں نے دیگر موجود ثانوی ذرائع سے بھی معلومات اکھٹی کیں ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد جب پہلی مردوم شماری1951 میں ہوئی تو کیلاش قبیلہ سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی تقریباً دس ہزار تھی۔ جبکہ 1896 میں ان کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ لیکن موجودہ  اندازوں کے مطابق ان کی آبادی 4500 کے لگ بھگ ہوگی۔ اس مخصوص قبیلہ/ مذہب کے پیروکاروں  کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے  حالانکہ   یہاں پر بچوں کی شرح پیدائش عموماً  ذیادہ ہوتی ہے۔ باوجود اس  کہ  ان کی آبادی روز بروز تیزی سے گھٹ رہی ہے اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ اکثریت کو تبلیغ  کھلی  اجازت ہے اور انکی حفاظت کے لئے  اور ان کی قدیم اور مخصوص روایات کو محفوظ کرنے کے لئے  کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ مختلف  مسلکی ، تبلیغی جماعتوں اور جہادی تنظیموں نے ان کو مسلمان کرنے کا بیڑا  اٹھا رکھا ہے  جن کواپنی مشن میں  کافی حد تک  کامیابیاں ملی ہیں ۔ا  س وادی میں پاکستان کے مختلف مذہبی مدار  س کی شاخیں کام کر تی نظر آرہی ہیں۔
ا  س وادی میں ملکی و غیر ملکی غیر سرکاری ادارے علاقے اور اس  کےمکینوں  کے فلاح  و بہبود  کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور یونان کا ادارہ ہے جو کیلاش کلچر کے حفاظت کے لئےسرگرم  تھا مگر حالات کی خرابی کی وجہ سے اب غیر فعال ہے۔یونانی رضاکار   اتھا نوسیوس لیرونس نے 2011 میں طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے سے پہلے کیلاش قبیلہ کے لئے 22 منصوبے مکمل کئے۔  انہوں نے جو سرگرمیاں سر انجام دئے ہیں ان میں کیلاش مذہب کے عبادت گاہوں کی تعمیر، کیلاشہ دور[کلچر سنٹر ]کی تعمیر، میٹرنٹی ہوم، واٹر  سپلائی ، کیلاش سکول و کیلاش قاعدہ کی ترتیب و تدوین شامل ہیں۔ کچھ اور  ادارے ڈسپنسری، واٹر سپلائ، پن بجلی گھر کی تعمیر، میں لگے ۔ وہاں جا کر ترقیا تی کاموں کےسائین بورڈز تو بہت لگے ہوئے ہیں مگر کام کم  دیکھائی دیتا ہے ۔
کیلاش کلچر کو دیکھنے کے لئے ہر سال  بہت سارے ملکی و غیر ملکی سیاح  آتے ہیں۔ کچھ لوگ تو سمجھنے اور تحقیق کی غرض  سے آتے ہیں اور کچھ صرف شغل، محظوظ  ہونےاور گھومنے کے لئے آتے ہیں۔ کیلاشی لوگ چونکہ پر امن ہیں، آپ ان کے گھر جا سکتے ہیں، وہ اپنی بساط کے مطابق آپکو چھوٹی گفٹ دیتے ہیں، آپ کو موجود میوہ جات خواہ خشک ہو یا تازہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں بہت سارے ‘سیاحوں ‘ کو پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہمارے ‘سیاح ‘ بھی اپنے آپ کو سارے حدود و قیود سے ماورا سمجھنے لگتے ہیں۔ جو حرکات وہ اپنے گھر، حجرہ، گاوں یا ادارہ میں نہیں کر سکتے وہ یہاں پر سارے حدود و قیود پار کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ ‘سیاح ‘  مقامی کلچر، مذہب اور روایات کا خیال نہیں رکھتے  اور کیلاش لوگوں کے   لئے پریشانی کا باعث بنتے  ہیں۔ کیلاش قبیلے کے افراد ا  س حوالے سے کافی حسا  س واقع ہوئے ہیں اور ا  س بات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ‘سیاح ‘لباس   اور دیگر حرکات و سکنات کا  بھی خیال نہیں رکھتے ، علاقے میں کچرا پھیلانا، کیلاش مذہب کے عبادت خانوں کے تقدس کو  پامال کرنا عام دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن کوئی بھی ریاستی ادارہ  دفعہ 295 کا استعمال  نہیں کرتا  اور نہ بے لگام سیاحوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  کچھ ‘سیاح  ‘تو اونی چترالی ٹوپی کے اوپر لگے  ہوئے پرندہ کے پر کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں  اور دوسرے سیاحوں کو بھی اسے پہننے سے منع کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔
کیلاش قوم کے لوگ چونکہ قدرت کے قریب تر واقع  ہیں۔ اپنا  کھانا  سادہ رکھتے ہیں، مال مویشی، کاشت کاری اور سادہ طرز زندگی گذارتے ہیں۔ گھر کی تعمیر، میں لکڑی ، مٹی اور پتھر کا استعمال  کرتے ہیں۔ اپنے تہواروں میں اپنے میوہ جات،  دودھ، اپنے پالے ہوئے بکروں کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔   اون سے بنی ٹوپی، اور ٹوپی کے اوپر پرندے کا پر لگاتے ہیں۔  کیلاش دیسی قبیلہ کےمختلف رسومات ہیں اور چونکہ یہ لوگ قدرت اور ماحول کے بہت قریب ہیں لہذا موسم  ان کے طرز زندگی پر بہت حد تک  اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ لوگ  پہاڑوں کے تنگ وادی میں زندگی گذار رہے ہیں، سردیاں خاصی شدید ہوتیں ہیں۔ بہار اور گر می کا موسم  بڑا خشگوار  ہوتا ہے۔  اسی حساب سے یہ اپنی چھوٹی بڑی  مذہبی تہواریں مناتے ہیں۔ ماہ مئی کے  درمیان جوشی تہوار، مئی کے آخر میں چھوٹا  جوشی تہوار، فصل  بونے ، کاٹنے کے الگ تہوار، بچے کے پیدائش اور کسی فرد کے فوتگی پر  بھی رسوم ادا کرتے ہیں ۔ کیلاش قبیلہ کے افراد سب تہواروں کو خوشی خوشی ناچتے، گاتےاور مسکراہٹ سے مناتے ہیں۔ وہ جو بھی ا  س قسم کے رسوم ادا کرتے ہیں وہ ان کے مذہب، عقیدہ، عباددات اور رسوم کا  حصہ ہے۔ اور کیلاشی قبیلہ کے لوگ ا  س کو کسی بھی طور پر ناچ اور گانا تصور نہیں کرتے جو اکثر ‘سیاح ‘اسکو صرف شغل کے طور پر لیتے ہیں۔ فوتگی پر خوشی کا اظہار کرنے کے حوالے سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب انسان اپنے خالق کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے تو  خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔  اور جب موت کے بعد اپنے خالق کی طرف جاتا ہے تو یہ بھی خوشی کی بات ہے۔  اور خوشی خوشی جانا چاہئے۔ ا  س لئے   ڈھول، ناچ اور گانا گا کر اور اسکے صفات بیان کرکے رخصت کیا جاتا ہے۔
کیلاش وادی تک پہنچنا کافی مشکل ہے۔ راستہ کافی خراب ہے اور دریا کے کٹاو کی وجہ سے  تنگ روڈ بہہ جاتا ہے یا بھاری پتھر اور مٹی کے تودے گرتے ہیں اور علاقے کے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے پیدل ایون گاوں تک انا جانا ہوتا ہے۔     گو   مقامی  سیاحوں سے ضلعی حکومت 20   روپے  اور غیر ملکی سیاحوں سے 200 روپے فی کس ٹیکس بھی  لیتی ہے  مگر اس کا استعمال کیلاش  وادی کے باسیوں کے فلاح و بہبود   پر نظر نہیں آتا۔ مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے  کہ ا  س ٹیکس کو ختم کیا جائے کیونکہ ا  س سے انکا  وقار مجروح ہوتا  ہے۔ 2015 کے سیلاب نے وادی میں تباہی بپا کر دی ہے اور ابھی تک لوگ  اپنی زندگی کو بحال نہیں کر سکے ہیں۔ لوگوں کے کھیت بہہ گئے۔ فصلیں تباہ ہوئیں، گھر، دکانیں ، مویشی بہہ گئے۔ علاقے کے ہوٹلز، صاف پانی کے چشمے اور پائیپ ختم ہوگئے۔    اب بھی دوباچ کے مقام پر جو پرانا پل کار آمد بنایا گیا ہے وہ کافی  خطرناک ہے او کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
   کیلاش کلچر  اور ا  سکے پیروکار دنیا میں صرف  ساڑے چار ہزار کی تعداد میں رہ گئے ہیں  لیکن انکے کلچر کے تحفظ اور فروغ کے لئے  کوئ حکومتی   و غیر حکومتی  اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔   ماضی میں کیلاش کے لوگوں نے اپنی ضروریات کے لئے رقم حاصل کرنے کے لئے اپنے درخت خصوصاً  اخرو  ٹ کے درخت  ایون و دیگر علاقوں کے مسلمان اکثریت کے ہاں گروی /رہن  رکھے تھے ۔  یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ  گرم اونی ٹوپی،  جوتے  یا  کپڑے کے عوض  اخرو  ٹ کا درخت یا ایک کنال زمین گروی کی گئی، گو اب حکومت  نے اس پر پابندی لگائ ہے مگر اب بھی پرانے رہن شدہ املاک  آزاد نہ ہو سکے ہیں۔   کیلاش قبیلہ کے شناخت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔  آپ کو یہ جان کر بہت دلچسپ لگے گا کہ پاکستان کے نادرا کے سسٹم میں کیلاش مذہب کو ابھی ابھی مذہب کے طور پر ماناگیا ہے اور اب تک گنتی کے چند کارڈز بنائے گئے ہیں جس میں نادرا کے سسٹم کے اندر  ان کا مذہب کیلاش کے طور   پر اندرا  ج کیا گیا ہے۔ باقیوں کے مذہب کا اندراج مختلف ہے مثلاً  اسلام، احمدی /قادیانی،  بدھ مت ، ہندو یا دیگر۔  کیلاش قبیلے کے ماننے والوں کی شناخت کا مسئلہ کافی پیچیدہ اور گھمبیر  بھی ہے اگر آپ کو نصیر، عرفان، گل محمد،  قائد اعظم  جسے نام سننے کو ملے تو کوئ اچھنبے کی بات نہیں۔ اکثر مسلمانوں والے نام اپنے شناخت کو چھپانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔    کیلاش قبیلے  کےافراد مسلسل  معد می کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ قبیلہ سرحد کے     اُس پار  افغانستان کے کافرستان میں بھی آباد تھا مگر  افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان نے 1895 میں ان کو بزور شمشیر مسلمان   کیا۔ اور انہوں نے اپنی  الگ شناخت کھو   دی۔ انکا علا قہ اب نورستان کہلاتا ہے۔ اکثر و بیشتر شدت پسند کیلاشیوں پر حملہ اور ہو کر ان کو مار دیتے ہیں اور بکریوں اور مویشیوں کو چرا لے جاتے ہیں۔
کیلاش قبیلہ کے اندر  مرد اور خاتو ن کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے  لئے  جیون ساتھی کا چناو کرے ۔ مرد  مہر ادا کرتا ہے۔ شادی تو کسی بھی وقت  ہو سکتی ہے مگر اکثر جوشی  تہوار کے آخری دن  ناچتے ہوئے اور گاتے ہوئے لڑکے اور لڑکیاں جیون ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں۔  اور اسی تہوار میں اسی کا اظہار کرتے ہیں۔  اگر کسی وقت  خاتون کا دل بھر جائے تو خاتو ن کسی دوسرے مرد کا انتخاب کر سکتی ہے اور ا  ُس سے شادی کا اعلا ن کر  تی ہے۔ مگر خاتون دوسرے  شوہر سے  پہلے شوہر کے نسبت دُگنا مہر وصول کرے گی اور پہلے شوہر کو بطور جرمانہ ادا کرے گی۔ ا  سکا مطلب یہ ہوا کی طلاق کے لئے لڑنے، جھگڑنے، عدالتوں اور ثالثوں کی  ضرورت نہیں  بلکہ دونوں اپنے مرضی سے فیصلہ کرتے   ہیں اور دوسرے فریق کو بخوشی قبول ہو تی ہے۔
  کیلاش  قبیلہ کے  افراد کے مذہب تبدیل کرنے کے لئے  طرح طرح کے طریقے استعمال  کئے جاتے ہیں۔دیسی  کیلاش  قبیلے کے افراد کے مذہب کو تبدیل کرنے کے لئے بہت سارے بدیسی، اجنبی، تبلیغی، مسلکی، مساجد و مدارس،   جہادی اور فلاحی  تنظیمیں اور افراد  سرگرم    ہیں۔ تبدیلی مذہب کے لئے کیلاش قبیلے کے لڑکے ، لڑکیوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی حدف بنایا جارہا ہے۔  سرکاری سکولوں میں اساتذہ  کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اور وہ کیلاشی بچوں خصوصاً  لڑکیوں کو تبلیغ  کرتے ہیں کہ مذہب تبدیل کریں اور کیلاشی لباس میں سکول نہ آئیں۔  ۔  کیلاش لڑکیاں پردہ کرکے سکول آیئں۔ کیلاشی بچوں کو اسلامیات پڑھانا بھی  ا  سمیں شامل ہے۔  صاحب ثروت مسلمان بھی کیلاشی شادی شدہ و غیر شادی شدہ خواتین  کے ساتھ شادی کے متمنی ہوتے ہیں۔ ا  س صورت میں پہلے وہ  کیلاشی خواتین کو مسلمان اور پھر ان سے شادی کی جا تی ہے ا  س صورت میں کیلاشی مروجہ طریقہ لاگو نہیں ہوتا اور خاتون  اپنے پہلے شوہر کو دوگنا  مہر ادا کرنے سے بری الذمہ ہو جاتی  ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں قائم مدار  س بھی نو مسلم کیلاشیوں کے بچوں کو کراچی و دیگر شہروں کے مدارس  میں داخل کرتے ہیں۔  اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد  مدار  س کے ان فارغ التحصیل     افراد کو کیلاش وادی میں مدار  س کھولنے کے لئے مالی مدد فراہم کی جا تی ہے۔ کچھ مدار  س تو   مذہبی اسلا می تعلیم کے ساتھ ساتھ دستکاری سنٹرز بھی کیلاشی خواتین کے لئےکھول دیتی ہے اور  سرکاری سکولوں کے کیلاشی بچوں کو سکول سے چھٹی کے بعد دوپہر کا کھانا  مدرسہ کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے دیگر مشنری سکولز بھی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں کیلاشی بچوں کو داخل کرتے ہیں اور  بورڈنگ سکولز میں ان کو   مسیحی مذہب کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔
 مندرجہ بالا سطورمیں کیلاش مذہب، روایات  اور ان کو درپیش مسائل  کا ایک مختصر خلاصہ پیش کیا گیا۔  قاریئن کو صورتحال کا اندازہ بھی ہوا ہوگا۔ کچھ دوستوں کے اندازے کے مطابق  اگر حالات اسی طرح رہے تو شائد اگلے  بیس، پچیس   سال میں کیلاش   کلچر صفحہ ہستی سے غائب ہو جائے گا۔ ضرورت ا  س امر کی ہے کہ کیلاشی قبیلہ ، ان کے رسم  روا ج، عادات و مذہب کا مکمل احترام کیا جائے۔ کسی قسم کے زبردستی کو روکا جائے ۔  تبدیلی مذہب کے لئے ان معصوم لوگوں کو مختلف لالچ  دینے والوں پر پابندی لگائ جائے  اس کے لئے ضروری قانون سازی کی جائے اور اسکی مکمل نگرانی کی جائے۔  کیلاش قبیلہ پر مشتمل افراد کا ایک خودمختار بورڈ بنایا جائے جو علاقے میں جاری ترقیا م کاموں کی نگرانی کرے اور مختلف ادارے ان کے ساتھ مل کر منصوبے بنائے۔ ان منصوبوں کو عملی کرنے کے لئے   بورڈ کی اجازت لاز می قرار دی جائے۔ علاقے کے ماحول کو صاف رکھنے کے لئے مختلف چیزوں پر پابندی لگائ جائے جیسے پلاسٹک اور اسکے بنے اشیا  ۔ کیلاش مذہب اور ثقافت پر بچوں کے لئے تدریسی کتب ترتیب دئے جائیں۔  کیلاش بچوں کو پڑھانے کے لئےکیلاش اساتذہ بھر تی کئے جائیں۔ علاقے میں دیگر  خدمات فراہم کرنے والے اداروں میں حتی الوسع  مقامی کیلاش افراد بھرتی کئے جائیں۔ کیلاشہ دور [کلچر سنٹر] کو خود مختار رکھاجائے اور سرکاری دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔ سرکاری تقریبات اور وی آئ پیز کے ٹہرانے کے لئےاس کا استعمال نہ کیا جائے۔ کیلاش وادی کا دورہ کرنے والے ‘سیاحوں ‘کے لئے کوئ ضابطہ اخلاق ہونی چاہئے  اور ا  س پر سختی سے عمل درآمد بھی ہونا چاہئے۔  عالمی طور پر یونیسکو اور قدیم و دیسی  ثقافتوں کے بچاو کے لئے  بنائے گئے ضابطوں[پروٹوکولز  ]پر عمل درآمد  یقینی بنانے  لئے موثر اقدامات کئے جانے چاہئے۔ رہن شدہ  /گروی شدہ املاک کو واگزار کرایا جائے۔ وادی کیلاش میں کاروبار  کا حق صرف کیلاشی و دیگر  مقامی افراد کو دیا جائے اور غیر مقامی افراد کو کاروبار کی اجازت نہ دی جائے تاکہ سیاحت سے واقعی اہلیان علاقہ کو فائدہ پہنچے۔ روڈز اور پل کی صورتحال بہتر  کرنےکی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ کیلاش کے تمام تہواروں میں وی آئ پیز کی آمد پر پابندی ہو اور یا وہ عام شہریوں کی طرح ائیں تاکہ پروٹوکول کے نام پر  مقامی افراد اور دیگر سیاح خوار نہ ہوں۔ کیلاش کے علاقہ کو  دیگر مذہب کےتبلیغ  کے لئےممنوعہ علاقہ قرار دیا  جائے  ۔موسمیا تی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور گلیشئرز کے    تیزی سے  پگھلنے کو کم سے کم کرنے کے لئے پورے علاقے میں اقدامات ہونی چاہئے۔
Source

No comments:

Post a Comment